حسد کا انجام امام غزالی فرماتے ہیں کہ ایک بادشاہ کے پاس ایک آدمی کو بڑا تقرب حاصل تھا۔اس پر ایک آدمی نے حسد کرنا شروع کر دیااورایک دن بادشاہ سے جا کر شکایت کی یہ شخص سے جو آپ کا مقرب ہے،اس کا گمان ہے کہ بادشاہ شاہ منہ کی بدبو کے مرض میں مبتلا ہے ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ آپ اس کو قریب لائیں تو وہ اپنی ناک پر ہاتھ رکھ لے گا تاکہ اس کی بدبو سونگھ سکے ۔بادشاہ نے کہا اچھا ہم دیکھ لیں گے۔یہ آدمی پھر اس شخص کے پاس گیا اور اپنے گھر کھانے کی دعوت پر بلایا اور کھانے میں لہسن زیادہ گالا،تاکہ کھانے کی وجہ سے منہ میں بدبو پیدا ہو جاۓ۔یہ آدمی اس سے بے خبر تھا ۔وہاںںسے نکلا اور بادشاہ کے پاس گیا۔تو بادشاہ نے کہا قریب آو ،یہ شخس اس خیال سے کے بادشاہ کو بدبو سے تکلیف نہ ہو اس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔بادشاہ کو یقین ہو گیا کہ جس آدمی نے اس کی شکایت کی وہ صحیح ہے ۔بادشاہ نے اپنے ایک گورنر کو لکھا کہ یہ خط لے کر آنے والے کو قتل کر دینا اور خط اسے دے دیااور کہا کہ گورنر کے پاس لے جاؤ ۔جب یہ آدمی باہر نکلا وہ شخص آگیا جس نے سازش کی تھی ۔ اس نے کہا اس خط میں کیا ہے؟تو اس شخص نے کہا کہ غالباً بادشاہ نے
شیر کی زندگی انسان کی موت حضرت عیسی علیہ السلام ایک روز جنگل میں جا رہے تھے آپ کے ساتھ ایک شخص تھا وہ عرض کرنے لگا لگا حضرت! مجھے بھی مردوں کو زندہ کرنے کا طریقہ بتا دیں دیں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا معجزے عطا کرنا اللہ کے اختیار میں ہے جس کو وہ اہل سمجھتا ہے عطاکرتا ہے ہر شخص عصا پھینک کر اژدہا نہیں بنا سکتا پھر اس اژدہا کو عصا نہیں بنا سکتا۔ یہ سن کر وہ شخص بولا بڑا یا نبی اگر میری یہ عرض کابل پذیرائی نہیں تو میرے سامنے مردہ زندہ کر کے دکھا دیجئے۔یہ ہڈیاں پڑی ہیں قم باذن اللہ کہہ دیجئے۔حضرت عیسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے عرض کیا یا اللّٰہ یہ شخص ضدی ہے اپنا نفع نقصان نہیں سوچتا تیرا حکم ہو تو اسے معجزہ دکھا دوں حکم ہوا جب یہ اپنی ہلاکت خود خریدتا ہے تو تم بری الذمہ ہو حضرت عیسی علیہ السلام نے قم باذن اللہ کہہ کر پھونک ماری تو ایک بڑا غضب ناک شیر کھڑا ہوا اور اس شخص کے سر پر ایسا پنجہ مارا کہ اس کا بھیجا باہر جا پڑا اور وہ شخص تڑپ تڑپ کر وہیں مر گیا حضرت عیسی علیہ السلام نے شیر سے کہا تو نے اٹھتے ہی اس کا کام کیوں تمام کردہ۔ شیر بولا اس لئے کہ اس نے آپ کو تکلیف
بادشاہ اور ہونہار طالب علم بادشاہ اور ہونہار طالب ایک بادشاہ نے امتحان لینے کے لیے کئی سو لوگوں کو محل میں بلایا یا ان میں سے ایک طالب علم بھی تھا۔ بادشاہ نے آنے والوں سے پوچھا کہ اس ٹینکی میںںکتنا پانی ہے؟؟؟ کسی نے کہا 1000 پیالے کسی نے 500 بتائے جب طالب علم کی باری آئی تو اس سے یہی سوال کیا گیا تو اس نے بادشاہ سے کہا بادشاہ سلامت آپ کا سوال ہے جب تک سوال پورا نہیں ہوگا تو اس کا صحیح جواب نہیں دیا جا سکتا۔ بادشاہ نے پوچھا میرا سوال کس طرح پورا نہیں ؟ طالب علم نے کہا آپ نے یہ نہیں بتایا کہ جس پیالے کے ذریعے پیمائش کریں گے وہ پیالہ کتنا بڑا ہے؟فرض کریں اگر کوئی بہت بڑا پیالہ ہو اور اس ٹینکی جتنا بڑا ہو تو اس میں ایک پیالے کے برابر پانی ہوگا۔اگر وہ پیالہ اس ٹینکی کی آدھ کے برابر ہے تو پھر دو پیالے پانی ہوا۔اگر ایک چوتھائی کے برابر ہے تو چار پیالے اگر دسویں حصے کے برابر ہے تو دس پیالے ۔یوں جیسے جیسے پیالا چھوٹا ہوتا جائے گا تو اس حساب سے پانی کے پیالوں کی تعداد بڑھتی جائےگی طالب علم کی یہ بات سن کر بادشاہ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دین کے علم سے انس
Comments
Post a Comment